The most important Muslim Shrine of Kashmir, that commands
the reverence of the people beyond measure, is undoubtedly the Hazratbal Shrine, which is situated on the left bank of the
Dal lake in Srinagar. This unmatched reverence is anchored in the love and respect for The Prophet Mohammed (peace be upon
Him), whose Moi-E-Muqqadas , (The Sacred Hair) is preserved here. The Shrine is known by many names including Hazratbal, Assar-E-Sharif,
Madinat-Us Sani, Dargah Sharief and Dargah.
The history of the Shrine goes back to the early seventeenth
century when the Moughal Emperor Shah Jahan's Subedar, Sadiq Khan, laid out a garden here and constructed a palatial building,
Ishrat Mahal or pleasure house in 1623. However, the Emperor, during his visit in 1634, ordered the building to be converted
into a prayer house with some additions and alterations. During the time of Aurangzeb, when Moi-E- Muqqadas arrived in Kashmir
in 1699, it was first kept in the Shrine of Naqashband Sahib in the heart of the city. Since the place was found to be insufficient
in view of the unprecedented rush of people who thronged the place to have a view of Moi-E- Muqqadas, it was decided to shift
to Hazratbal, then known as Sadiqabad. The construction of the present marble structure was started in 1968 and completed
in 1979. The Moi-E-Muqaddas is displayed on various occasions related with the life of the Prophet and his four holy companions.
داریں خیال کر کے
قرضہ سے دست برداری دیکر
فارغ خطی لکھ کر دی اور
موئے مبارک حاصل کیا۔
سفر کا سامان باندھ کر
کشمیر کی طرف روانہ ہوا۔
جاسوسوں نے عالمگیر کو
واقعہ کی خبر دی اور بادشاہ
نے حکم دیا کہ جہاں بھی
موئے شریف ہو واپس لاکر
پیش کریں۔ خواجہ نورالدین
لاہور پہنچا تھا اور وہیں
گرفتار کیا گیا ۔ موئے
مبارک اور میدانش غلام
اس سے لیکر بادشاہ کو پیش
کئے گئے بادشاہ نے موئے
مبارک کی زیارت کرکے حکم
دیا کہ موئے شریف کو خواجہ
معین الدین چشتی رحمتہ
اللہ علیہ کی خانقاہ میں
رکھا جائے ۔ درگاہ کے ملازم
موئے شریف لیکر اجمیر
شریف پہنچے اور موئے شریف
کو خانقاہ میں رکھا اجمیر
شریف میں موئے مبارک کو
نو ہی دن گذرے تھے کہ بادشاہ
نے حضرت سر ور دو عالم ﷺ
کو خواب میں دیکھا آپ ﷺ
نے بادشاہ کو فرمایا İ”میر
ا موئے جو اجمیر شریف میں
رکھا گیا ہے کشمیر بھیج
دیا جائے“۔ اور اس کے وہاں
بھیجنے میں درنگی نہ ہو“۔
بادشاہ نے بادشاہ دو جہاں
ﷺ کے فرمانے کی فوری تعمیل
کی موئے مبارک معہ میدانش
غلام اجمیر شریف سے واپس
منگا کر میدانش کو انعام
و اکرام اور خلعت دیکر
کشمیر روانہ کیا۔میدانش
موئے مبارک لیکر لاہور
پہنچا ۔ اسے معلوم ہو ا
کہ خواجہ نور الدین دق
کی بیماری میں مبتلا ہو
کر جاں بحق ہوا ہے ۔ میدانش
خواجہ نورالدین کی نعش
ساتھ اٹھا کر کشمیر کی
طرف آگے بڑھا ۔کشمیر میں
موئے مبارک کی خبر پہنچی
تو یہاں کے بڑے بڑے مشائخ
۔عالم ۔خاص اور عام عشقان
رسول اللہ ﷺکی ایک بڑی
جماعت استقبال کےلئے
ہیرہ پور گئے ۔اور حضرت
شیخ محمد رادوننگے پاﺅں
بھمبھرتک پیشوائی کرتے
رہے۔وہاں سے موئے مبارک
کے صندوق کو سر پر رکھ کر
وجد و حال سے راستہ طے کرتے
رہے ۔شہر پہنچے اور موئے
مبارک کو حضرت خواجہ معین
الدین نقشبندی کے روضہ
میں رکھا ۔ دوسرے دن روضہ
پر لوگوں کا ہجوم ہو ا۔
موئے مبارک کو صندقچی
سے نکا لا گیا ۔ شیخ وقت
شیخ محمد رادو نے نشاندہی
کر کے موئے مبارک کی زیارت
کرائی۔ ہجوم کی کثرت سے
کئی آدمی پامال ہوکر جاں
بحق ہو گئے۔ اس واقعہ سے
متاثر ہو کر شہر کے امیروں
۔ عالموں اور مشایخون
نے فاضل خان صوبیدار کشمیر
سے مشورہ کر کے باغ صادق
خان کو جو ڈل جھیل کے کنارے
واقع تھا ۔ وسعت اور نزہت
کے موجب بہترین مقام جانکر
موئے مبارک کو وہاں رکھا
بادشاہ عالمگیر نے اس
کے خادموں کے گذارہ کےلئے
تین گاﺅں بطور جاگیر بخش
دیئے۔ میر زا قلندربیگ
نے موئے مبارک کشمیر پہنچنے
کا یہ تاریخ قطعہ لکھا
ہے۔۱۱۱۱ھ
محتاجان
رابوقت حاجت طلبی
موئے مدداست یا رسول عربی
ﷺ
تاریخ نزول ”مو“بمن
ہا گفت کشمیر مدینہ
بشداز موئے نبی ﷺ
اس وقت
سے مرتے دم تک حضرت شیخ
محمد رادو موئے مبارک
کی زیارت کراتے رہے ان
کے انتقال کے بعد نشاندہی
کرانے کی جرات کسی کو نہ
ہوئی ۔ اسی اثنا میں شہر
کے رئیسوں اور معززوں
نے نشاہدہی کرنے اور زیارت
کرانے کا حقدار خواجہ
نورالدین کے داماد خواجہ
بلاقی بانڈے کو تسلیم
کر کے یہ مبارک کام ان کے
تفویض کردیا ۔ اس زمانے
سے خواجہ بلاقی بانڈے
کے خاندان کے وارث اس درگاہ
کے متولی ہیں اور اپنی
اپنی باری پر زیارت دکھاتے
ہیں۔ موئے مبارک کشمیر
میں پہنچنے پر سال بھر
میں صرف دو دفعہ نشاندہی
کی جاتی تھی۔ تین دن شب
معراج پر اور تین دن عید
میلاد پر ۔ کچھ مدت کے بعد
لوگوں کی خواہش کے موجب
چار یار باصفا کے عرسوں
کے دنوں پر بھی زیارت دکھانے
کا فیصلہ کیا گیا۔اس طرح
چھ مرتبہ اور دس روز سال
میں نشاندہی کی جاتی ہے
۔ موئے مبارک کی تحقیق
اور تصدیق کا دارومدار
صرف روایات اور تحریرات
ہی پر نہیں ہے۔ بلکہ اس
کی تصدیق اس وقت کے اور
بعدکے صاحبدلو ں اور روشن
ضمیروں نے کی ہے۔چنانچہ
موئے مبارک کے یہاں پہنچنے
کے دنوں ہی میں حضرت شیخ
محمد رادو اور خواجہ احمد
یسوی جواپنے زمانے کے
بڑے خدادوستوں میں سے
تھے ۔ حضرت رسالت پناہ
ﷺ کی جناب کی طرف متوجہ
ہوئے دونں آنحضرت ﷺ کے
دیدار سے مشرف ہوئے اور
موئے مبارک کے بارے میں
استفسار کرنے پر جواب
پائے۔”یہ میرے دائیں
گیسوکا ہے“ ان کے بعد کے
بزرگوں اور صوفیوں نے
بھی تحقیقات کر کے تصدیق
کی ہے ۔ کچھ ظاہری واقعات
بھی ہیں۔جن میں آزاد خان
حاکم کشمیر کے امتحان
کرنے کی کوشش کرنے کا واقعہ
مشہور ہے اور وہ یہ ہے کہ
آزاد خان نے چاہا کہ موئے
مبارک کو شیشی سے نکال
کر آگ پر امتحان کرے ۔اس
کا خیال تھا کہ آنحضرت
ﷺ کا موئے اگر ہو گا تو نہیں
جلے گا۔ اسی خیال سے اس
نے موچنے سے موئے مبارک
کے سرے کو پکڑ کر کھینچا
۔ موئے مبارک نہ نکلاسرے
کے پاس سے کٹ گیا۔اور وہ
ٹکڑا بھی شیشی ہی میں رہے۔
چالیس دن گذرے آزاد خان
کاسر تن سے جدا کیا گیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ موئے
مبارک شیشی میں معلق نظر
آتا ہے ۔اور شیشی ایک طرف
سے دھندلی سی رہے ۔ متولیوں
نے چاہا تھا کہ شیشی کو
بدلائیں لیکن موئے مبارک
شیشی سے نہ نکلا۔ سب سے
بڑی بات یہ ہے کہ صاحبدلوں
اور خدادوستوں پر کچھ
عجیب سی حالت طاری ہوتی
ہے اور انہیں فیض و برکات
کا احساس ہو تا تھا اکثر
بزرگوں کا بیان ہے کہ وہ
اسی مقام سے سر ور کا ئینات
ﷺ کے دیدار سے مشرف ہوئے۔
کشمیر میں اور چارموئے
مبارک ہیں ان میں جو ارادت
عقیدت اور محبت لوگوں
کے دلوں میں درگاہ حضرت
بل کے موئے مبارک سے ہے۔
وہ بیان سے باہر ہے ۔ معراج
شریف اور عید میلاد کے
دنوں میں لاکھوں کی تعداد
میں لوگ زیارت کو آتے ہیں
( اسرار الاخیار)
تاریخ حسن جلد ثالث
(مورخ کشمیر پیر غلام حسن
شاہ کھویہامی