jktitle.jpg

Shrines

chari-esharief.jpg

Ziarat Sharief Hazrat Sheikh Noor-ud-Noorani (RA), Chrar-i-Sharief, Budgam

شیخ العالم حضرت شیخ نورالدین نورانی  کی مختصر سوانح حیات

 وادی کشمیر قدیم زمانہ سے شعر وا دب اور تصوف کا گہوارہ رہ چکی ہے علم و ادب اور تصوف کی اس محفل میں بڑے بڑے ادیب ، شاعر ،عارف اور صوفی پید اہوئے جنہوں نے توحید و سنت کا راگ چھیڑا ۔وحدت ملی کا جذبہ اجاگر کیا فرزندآدم کو تسخیر فطرت کا سبق سکھایا نور اسلام سے شبستان عالم کو جگمگایا علم و عرفان اور تصوف کے دریا بہائے ان کے احسانات کے بار گران سے مسلمان رہتی دنیا تک اپنی گردنوں کا ہلانہ سکیں گے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے خوبصورت آستانوں سے کشمیر کی دھرتی کا چپہ چپہ آج بھی آسمان کی قندیلوں سے زیادہ روشن ہے ان عاشقوں اور عارفوں میں حضرت شیخ نو رالدین ولی ؒ کا نام مبارک سر مطلع دیوان عشق ہے بقول شاعر۔
  آں شہے ہمدان علی ثانی لقب    رُتبہ امسندوی وجہت پیووی در عجب
  تاب کنہ رودس نہ یلہ ڈیوٹھن بہ خواب      شیخ العالم عارفن ہند آفتاب
 حضرت علمدار کشمیر شیخ نورالدین ولی ؒ نے اپنی والدہ محترمہ صدرہ ماجی کے بطن سے جنم لیا بابا سالار الدین ؒ انکا والد محترم تھا موضع کیموہ گاﺅں ضلع اسلام آباد کے رہنے والے تھے ۔ علمدار کشمیر ؒ کے بشت سے صر ف دو بچے بیٹی زون دید اور ایک بیٹا بابہ حیدر پیدا ہو ا جو دونوں ایام شیر خواری میں ہی خدا کے پیارے ہو گئے ۔اُنہوں نے اپنے خُدا اور رسول کا پیغام ۔قرآن اور سُنت کشمیر کے کونے کونے تک پہنچانے کا جو عزم کیا تھا ۔وہ خواب شیخ العالم ؒ نے شرمندئہ تعبیر کیا اور خُدااور رسول کا کلام کشمیر کے چپے چپے تک پھیلایا جیساکہ انکے اپنے کلام سے بھی ثابت ہوتا ہے۔
کشیر پھیورس اندی اندی   کانسہ مُثررُمنہ براندی تراﺅ
جندس یلہ کُورم پیوندی     اد دُوپ ہم فندی ہا آﺅ
 ترجمہ۔میں تمام کشمیر میں(ارد گرد ) پھیرا اور کسی نے میرے لئے دروازہ نہ کھولا ۔اور جب میں نے اپنے خرقے میں پیوند لگایا تو لوگوں نے مجھے فندبازکہا۔
 اُن کے کلام کو آج بھی لوگ کاشر قرآن کے نام سے پکارتے ہیں۔ جناب شیخ علیہ رحمہ کشمیر زبان کے پہلے نامور اور عظیم شاعر ہیں۔ آپ کا کلام عارفانہ ،مبلغانہ ،واعظانہ ہونے کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس توحید پرستی اور حقیقت نگاری کا آئینہ دار ہے۔صدیاں گذر نے کے بعد لوگ آپ کا کلام روحانی محفلوں ،مسجدوں ،سکولوں ،کھیتوں اور دیگر جگہوں پر بڑی عقیدت کے ساتھ جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں کیونکہ آپ کاکلام قرآن و سُنت کا ماحصل ،نچوڑ اور خمیر ہے ۔ حضرت شیخ ؒ ؒ کی وفات کے کوئی ایک سواسی سال بعد حضرت بابا نصیب الدین غازی ؒ نے ایک کتاب İİİİ”ریشی نامہ“ تصنیف کی لیکن بابا نصیب نے بھی شیخ پاک ؒ کا کشمیر ی کلام بوجہ نہ سمجھنے ترک کیا ہے ۔باباکمال اور بابا خلیل نے بڑی محنت اور حتی الامکان کو شش کی ہے اور اس لطیفے سے جو شیخ پاک ؒ نے یہاں فرمائی ہے اپنے کمر ہائے ہمت باندھ لئے ہیں۔
 ترجمہ ۔ کون خداکو ڈھونڈنے گیا اور کس نے اُسکو دیکھا وہ کون ہے جو اس راستے میں پیچھے ہے۔جو جس کام پر ڈٹے رہے تو اُس نے اُس کام کے


۔۔۔۲۔۔۔
لئے نزدیکی راستہ پایا۔جس نے کھٹا اور میٹھا،کڑوااور زہر خون جگر کھایا اور جو کسی کام کے پیچھے پڑگیا اور صبر و استقلال سے کام لیا وہ اُس کام کے انجام کو پہنچ گیا۔
 وہ لکھتے ہیں کہ اسی وجہ سے اپنے مقدور کے مطابق شیخ پاک ؒ کے دل نشین نکات جمع کرنے میں مشغول ہوئے جس سے جو کچھ ہم نے سُنااور دیکھا اور پوچھا وہ ہم نے قلمبند کیا ۔کسی فکر کے جنے سے جگر خُون بن جاتا ہے تو پھر ایک قافیہ دار فقرہ بنتاہے۔دماغ کے جلنے سے جوش پکڑتا ہے تو معنی کا چہر ہ صاف ہو تا ہے ایک لفظ کے لئے راتیں اور دن صرف ہو جاتے ہیں تو وہ لفظ چشم بینا کے لئے روشن ہو جاتا ہے ایک نادان اور کم فہم اس محبت کی قدر کو کیا جانتا ہے اور عقل اور دانائی سے بہرہ ہو۔
 حضرت شیخ نورالدین ولی ؒ کا زاد یوم ۔حضرت شیخ ؒ اویسی طریقہ پر ایک ولی مادر زاد تھے ۔ آٹھویں صدی ہجری ۴۷۷ھ مطابق ۷۷۳۱ءمیں آپ نے جنم لیا اور نویں صدی ہجری ۷۳۸ھ مطابق ۸۳۴۱ءمیں وفات پائی۔ امیر تیمور کے ظلم سے سادات یہاں وارد ہوتے جاتے تھے ۔۳۷۷ھ میں سید حسین سمنانی ؒ عم زادئہ علی ثانی ؒ کشمیر تشریف فرما ہوئے ۔ شیخ العالم ؒ نووارد سادات میں سے کسی کے پاس مرید بننے کے لئے نہیں گئے ۔ کیونکہ اویسی ولی مادرزاد ہونے کے ناطے کوئی بھی سید اُنکی رہنمائی کے اہل نہ تھا۔صرف گاہ وبیگاہ حضرت سید حسین سمنانی ؒ کے پاس آتے جاتے تھے کیونکہ وہ آپکے والد کا پیر کامل تھا۔
آپکی پیشانی سے بچپن ہی سے آثار صلاحیت دکھائی دئے جاتے تھے آپ نے وادی کشمیر میں ہمہ جہت ہر پہلوتبلیغ اسلام کیا۔سوسائٹی کے ہر طبقہ کو پیغام الٰہی پہنچایا ۔جسے آپکی مخالفت ہونے لگی آپ کے خلاف پروپگنڈا کرنے لگے مُلااور پیر جن کے ہاتھ میں قلم تھا اُنہوں نے بھی آپکو بدنام کرنے کی کوشش کی یہ ملاءعاشق ہر جائے بن چکے تھے۔شیخ پاک اُنکو مسلم حنیف بنانا چاہتا تھا مگر یہ شیخ پاک ؒ کے خلاف گندا ُچھالتے تھے۔اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے تھے اور شیخ پاک ؒ کو بُرے ناموں سے پکارتے تھے۔اسکے علاوہ غیر مسلم بھی آپ کی شکایات ارباب اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتے رہے ۔آپ کی بدنامی کے لئے ایک منظم سازش کے تحت عوام الناس میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ۔ دراصل سب سے جھوٹا پروپگنڈا شیخ پاک ؒ کے تبلیغ اسلام میں رکاوٹ ڈالنے کی ایک سوچی سمجھی مذموم کوشش تھی جسے وہ بُری طرح ناکام ہوئے حضرت شیخ ؒ کو ہیچ ذات جتلانے سے بھی ستاتے تھے۔شیخ العالم ؒ نے پھر اپنے اشعار میں اپنے خاندان کی اصلیت یوں بیان کی۔
 ترجمہ۔نسب والا نسب پر فخرکرتا ہے ۔ایسے آدمی کو عقل و ادب کا ایک ذرہ بھی نہیں ہے ۔تمام لوگ اپنی آبائی ذات پر فخرکرتے ہیں اور آخرت یعنی تقویٰ کی ذات پر فخر کرتے ہیں۔اسی لئے شیخ پاک ؒ نے تقویٰ کے متعلق یہ فرمایا ہے۔
 ترجمہ۔ اگر اسلام کی بُوتجھ میں موجو د ہو گی تو اُس سے بڑھ کر کوئی ذات چمکتی ہو گی ۔گو قرآن او رحدیث کے حکم کے تحت اعلیٰ ذات کا ہو نا کوئی سند نہیں۔

ishii_009.jpg

Jenab Sahib Soura, Srinagar


آ ثار شریف جناب صاحب صورہ کی مختصر تاریخ
(بحوالہ تاریخ حسن )

نام تبرکات ٭موئے مقدس آنحضرت ٭گیسوئے مبارک و موئے مبارک چار یاران باصفا ؓ(دائرے میں )٭عکس پائے
مبار ک آنحضور برنگ سیاہ ٭عکس پاک مبارک برنگ سرخ ٭نعلین مبارک آنحضور جن کی مرمت آحضور نے خود اپنے دست مبارک سے فرمائی ہے۔
٭موئے شریف حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی ؒ٭جامہ مبارک عرف چوغہ جو پیر کامل ؒخطبہ فرمانے کے وقت استعمال میں لاتے تھے اور وہ آسہ مبارک جو حضرت جنید بغدادی ؒ نے حضرت پیر ؒ کو تحفہ میں دیا تھا۔
مندرجہ بالا تبرکات حضرت سید جلال الدین بخاری ؒ کے خاندان میں پُشت در پُشت محفوظ تھے ۔اُن کے خاندان میں ایک برگذیدہ شخصیت حضرت سید عنایت علی بخاری ؒ جومدینہ منورہ میں سکونت پذیر تھے تقریباًسال ۰۰۱۱ھ اپنے کنبے کے ساتھ سیاحت کے لئے روم ،شام ،بغداد اور دوسرے ممالک سے ہو تے ہوئے ہندوستان پہنچے ۔معروف خاندان کی وابستگی اور تبرکات عالیہ شہرت کی وجہ سے لوگوں میں چھا گئے ۔ اُنہوں نے ہی تبر کات اپنے ساتھ لائے۔عقیدت مندوں میں شاہی دربار کے وزیر الملک قمر الدین خان نصرت جنگ اعتادالدولہ محمد شاہ غازی بھی میر عنایت علی سے عقیدت رکھتے تھے اُن کو اس بشارت کی خبر ہو ئی اور سال ۰۳۱۱ھ کو سید عنایت علی ؒ وزیر الملک قمر الدین خان کا پروانہ خصوصی نیام میر حید ر خان صوبیدارکشمیر لیکرمعہ اپنے کُنبے کے ساتھ وارِد کشمیر ہوئے۔
تبرکات مختلف جگہوں پر پہنچی لیکن نشاندہی کہیں نہ ہو ئی ۔بلکہ علماء،مفکر اور دانشوروں کے مشورے پر بہ اتفاق رائے جھیل آنچار کے نزدیک نشاندہی تبرکات عید میلادالنبی کے موقعہ پر کی گئی ۔اُس دوران آثار شریف کا تعمیر ہو ا جو کہ آجکل وسیع پیمانہ پر ہے۔
مذکو رہ بالا تبرکات کی نشاندہی آثار شریف حضرت بل کی طرح چھ بار کرائی جاتی ہے نیز حضرت غوث الاعظم ؒ کے تبرکات کی نشاندہی بھی اُن تقریبات پر کی جاتی ہے جن تقریبات پر خانیار شریف میں تبرکات کی نشاندہی کرائی جاتی ہے۔

khanyar.jpg

Ziarat Sharief Hazrat Peer Datageer Sahib, Khanyar, Srinagar

ورُود مسعودِ مویِ شریف
 
 حضرت پیر دستگیر صاحب ؒکے موئے مقدس واقع خانیار شریف کی نشاندہی ۱۲۲اھ سے شروع ہوئی۔اس وقت سید بزرگ شاہ صاحب سجادہ نشین تھے۔ حضرت غوث الاعظم ؓ کا مویِ شریف افغان حکومت کے گورنر سردار عبداللہ خان نے کسی سیاحَ سے کا فی رقم دیکر حاصل کیا اور زیارت عالیہ خانیار میں رکھدیا ۔ گورنر سردار عبداللہ خان سید بزرگ شاہ صاحب کے خاص مریدوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ ۱۲۲۱ھ سے موی مقدس کی نشاندہی شروع ہوئی ۔تب سے ربیع الثانی شروع ہوتے ہی مسلمانان کشمیر اس بقعہ عالیہ میں آکر دُنیوی اور اُخروی فیوض حاصل کرتے ہیں اس مہینہ کی گیارہویں بارہویں اور اسکے آخری جمعہ کے ایام میں نشاندہی موئے مبارک غوث الاعظم ؒ کی جاتی ہے۔
 حضرت غوث الاعظم کے موی شریف کی نشاندہی سب سے پہلے حضرت سید جلال شاہ صاحب جو سید محمد محمود کے پڑ پوتے تھے نے کرائی ہے۔سید جلال شاہ صاحب میرہ مسجد خانیار میں مدفون ہیں جو کوچئہ جلال شاہ صاحب کے نام سے مشہور ہے آپ بلند پایہ کے بزرگ اور صوفی شاعر گذرے ہیں۔ آپ کو نوے ہزار حدیث مبارک وردِ زبان تھے ۔ جب سید جلال شاہ صاحب نشاندہی موئے مقدس فر ما رہے تھے تو اُن کو حضرت غوث الاعظم ؒ جلوہ گر ہوئے اور فرمایا کہ ”یہ میرے دائیں طرف والے کاکل کا موئے ہے ،اس کے بعد سید جلال شاہ صاحب نے دوبارہ نشاندہی موئے مقدس غوث الاعظم ؒ کی جرات نہیں کی جس وجہ سے موئے شریف کی نشاندہی دوبرسوں تک لوگوں کو نصیب نہیں ہوئی ۔پھر زائرین کی بیقراری و اضطراری حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت سید بزرگ شاہ صاھب نے خود موئے شریف کی نشاندہی فرمائی ۔ آخر پر حضرت پیر نورالدین صاحب المعروف نندہ ریشی ثانی ساکن پانپور کو موئے شریف کی نشاندہی کے لیے مقر ر کیا گیا ۔پیر نورالدین صاحب اپنے دور کے بڑے بزرگوں میں شمار کئے جاتے تھے۔
 پیر نورالدین صاحب قادری کے بعد اُن کے خاندان کے پیر علی شاہ صاحب ، پیر غلام محمد صاحب ، پیر احمد شاہ صاحب اور پیر محمد سعید صاحب نے پشت در پشت موئے شریف کی نشاندہی فرمائی ہے ۔ اس وقت محمد سعید صاحب کے فرزند پیر غلام قادر صاحب قادری موئے مقدس حضرت غوث الاعظم ؒ کی نشاندہی فرماتے ہیں۔
 شیخ کلیم اللہ صاحب کے فرزند شیخ محمد عبداللہ صاحب قریشی جو کہ بہت بڑے بزرگوں میں شمار کئے جاتے ہیں نے اسلام پھیلانے اور وعظ و تبلیغ کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔حضرت سید جلال شاہ صاحب قادری مشتاق نے شیخ محمد عبداللہ قریشی کو بحثیت متنبیٰ لایا تھا اور محلہ میرہ مسجد خانیار شریف کے کو چہ جلال شاہ صاحب میں اپنی ملکیتی زمین اور مکان ان کو عطا کی اور مقبرہ کے لئے اپنے مقبرہ میں تھوڑی سی زمین بخشدی جس میں محمد عبداللہ صاحب سے لیکر آجتک سارا خاندان مدفون ہے ۔ حضرت سید بزرگ شاہ صاحب سجادہ نشین زیارت غوثیہ خانیار شریف نے آپ کو متقی اور پر ہیز گار دیکھکر سلسلئہ قادریہ میں شامل کرکے زیارت عالیہ میں امام و خطیب اور سر حلقہ ختم خوان مقرر کیا ۔شیخ محمد عبداللہ صاحب کے بعد غلام محمد صاحب قریشی ،سعد الدین صاحب اور محمود شاہ صاحب نے بھی پشت در پشت بحثیت امام و خطیب ختم خوان اور موذن اپنے فرائض انجام دیئے ہیں۔

78277-hazratbal-mosque-0.jpg

The most important Muslim Shrine of Kashmir, that commands the reverence of the people beyond measure, is undoubtedly the Hazratbal Shrine, which is situated on the left bank of the Dal lake in Srinagar. This unmatched reverence is anchored in the love and respect for The Prophet Mohammed (peace be upon Him), whose Moi-E-Muqqadas , (The Sacred Hair) is preserved here. The Shrine is known by many names including Hazratbal, Assar-E-Sharif, Madinat-Us Sani, Dargah Sharief and Dargah.
The history of the Shrine goes back to the early seventeenth century when the Moughal Emperor Shah Jahan's Subedar, Sadiq Khan, laid out a garden here and constructed a palatial building, Ishrat Mahal or pleasure house in 1623. However, the Emperor, during his visit in 1634, ordered the building to be converted into a prayer house with some additions and alterations. During the time of Aurangzeb, when Moi-E- Muqqadas arrived in Kashmir in 1699, it was first kept in the Shrine of Naqashband Sahib in the heart of the city. Since the place was found to be insufficient in view of the unprecedented rush of people who thronged the place to have a view of Moi-E- Muqqadas, it was decided to shift to Hazratbal, then known as Sadiqabad. The construction of the present marble structure was started  in 1968 and completed in 1979. The Moi-E-Muqaddas is displayed on various occasions related with the life of the Prophet and his four holy companions.
 
 
داریں خیال کر کے قرضہ سے دست برداری دیکر فارغ خطی لکھ کر دی اور موئے مبارک حاصل کیا۔ سفر کا سامان باندھ کر کشمیر کی طرف روانہ ہوا۔ جاسوسوں نے عالمگیر کو واقعہ کی خبر دی اور بادشاہ نے حکم دیا کہ جہاں بھی موئے شریف ہو واپس لاکر پیش کریں۔ خواجہ نورالدین لاہور پہنچا تھا اور وہیں گرفتار کیا گیا ۔ موئے مبارک اور میدانش غلام اس سے لیکر بادشاہ کو پیش کئے گئے بادشاہ نے موئے مبارک کی زیارت کرکے حکم دیا کہ موئے شریف کو خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کی خانقاہ میں رکھا جائے ۔ درگاہ کے ملازم موئے شریف لیکر اجمیر شریف پہنچے اور موئے شریف کو خانقاہ میں رکھا اجمیر شریف میں موئے مبارک کو نو ہی دن گذرے تھے کہ بادشاہ نے حضرت سر ور دو عالم ﷺ کو خواب میں دیکھا آپ ﷺ نے بادشاہ کو فرمایا İ”میر ا موئے جو اجمیر شریف میں رکھا گیا ہے کشمیر بھیج دیا جائے“۔ اور اس کے وہاں بھیجنے میں درنگی نہ ہو“۔ بادشاہ نے بادشاہ دو جہاں ﷺ کے فرمانے کی فوری تعمیل کی موئے مبارک معہ میدانش غلام اجمیر شریف سے واپس منگا کر میدانش کو انعام و اکرام اور خلعت دیکر کشمیر روانہ کیا۔میدانش موئے مبارک لیکر لاہور پہنچا ۔ اسے معلوم ہو ا کہ خواجہ نور الدین دق کی بیماری میں مبتلا ہو کر جاں بحق ہوا ہے ۔ میدانش خواجہ نورالدین کی نعش ساتھ اٹھا کر کشمیر کی طرف آگے بڑھا ۔کشمیر میں موئے مبارک کی خبر پہنچی تو یہاں کے بڑے بڑے مشائخ ۔عالم ۔خاص اور عام عشقان رسول اللہ ﷺکی ایک بڑی جماعت استقبال کےلئے ہیرہ پور گئے ۔اور حضرت شیخ محمد رادوننگے پاﺅں بھمبھرتک پیشوائی کرتے رہے۔وہاں سے موئے مبارک کے صندوق کو سر پر رکھ کر وجد و حال سے راستہ طے کرتے رہے ۔شہر پہنچے اور موئے مبارک کو حضرت خواجہ معین الدین نقشبندی کے روضہ میں رکھا ۔ دوسرے دن روضہ پر لوگوں کا ہجوم ہو ا۔ موئے مبارک کو صندقچی سے نکا لا گیا ۔ شیخ وقت شیخ محمد رادو نے نشاندہی کر کے موئے مبارک کی زیارت کرائی۔ ہجوم کی کثرت سے کئی آدمی پامال ہوکر جاں بحق ہو گئے۔ اس واقعہ سے متاثر ہو کر شہر کے امیروں ۔ عالموں اور مشایخون نے فاضل خان صوبیدار کشمیر سے مشورہ کر کے باغ صادق خان کو جو ڈل جھیل کے کنارے واقع تھا ۔ وسعت اور نزہت کے موجب بہترین مقام جانکر موئے مبارک کو وہاں رکھا بادشاہ عالمگیر نے اس کے خادموں کے گذارہ کےلئے تین گاﺅں بطور جاگیر بخش دیئے۔ میر زا قلندربیگ نے موئے مبارک کشمیر پہنچنے کا یہ تاریخ قطعہ لکھا ہے۔۱۱۱۱ھ
 
 محتاجان رابوقت حاجت طلبی     موئے مدداست یا رسول عربی ﷺ
  تاریخ نزول ”مو“بمن ہا گفت     کشمیر مدینہ بشداز موئے نبی ﷺ
اس وقت سے مرتے دم تک حضرت شیخ محمد رادو موئے مبارک کی زیارت کراتے رہے ان کے انتقال کے بعد نشاندہی کرانے کی جرات کسی کو نہ ہوئی ۔ اسی اثنا میں شہر کے رئیسوں اور معززوں نے نشاہدہی کرنے اور زیارت کرانے کا حقدار خواجہ نورالدین کے داماد خواجہ بلاقی بانڈے کو تسلیم کر کے یہ مبارک کام ان کے تفویض کردیا ۔ اس زمانے سے خواجہ بلاقی بانڈے کے خاندان کے وارث اس درگاہ کے متولی ہیں اور اپنی اپنی باری پر زیارت دکھاتے ہیں۔ موئے مبارک کشمیر میں پہنچنے پر سال بھر میں صرف دو دفعہ نشاندہی کی جاتی تھی۔ تین دن شب معراج پر اور تین دن عید میلاد پر ۔ کچھ مدت کے بعد لوگوں کی خواہش کے موجب چار یار باصفا کے عرسوں کے دنوں پر بھی زیارت دکھانے کا فیصلہ کیا گیا۔اس طرح چھ مرتبہ اور دس روز سال میں نشاندہی کی جاتی ہے ۔ موئے مبارک کی تحقیق اور تصدیق کا دارومدار صرف روایات اور تحریرات ہی پر نہیں ہے۔ بلکہ اس کی تصدیق اس وقت کے اور بعدکے صاحبدلو ں اور روشن ضمیروں نے کی ہے۔چنانچہ موئے مبارک کے یہاں پہنچنے کے دنوں ہی میں حضرت شیخ محمد رادو اور خواجہ احمد یسوی جواپنے زمانے کے بڑے خدادوستوں میں سے تھے ۔ حضرت رسالت پناہ ﷺ کی جناب کی طرف متوجہ ہوئے دونں آنحضرت ﷺ کے دیدار سے مشرف ہوئے اور موئے مبارک کے بارے میں استفسار کرنے پر جواب پائے۔”یہ میرے دائیں گیسوکا ہے“ ان کے بعد کے بزرگوں اور صوفیوں نے بھی تحقیقات کر کے تصدیق کی ہے ۔ کچھ ظاہری واقعات بھی ہیں۔جن میں آزاد خان حاکم کشمیر کے امتحان کرنے کی کوشش کرنے کا واقعہ مشہور ہے اور وہ یہ ہے کہ آزاد خان نے چاہا کہ موئے مبارک کو شیشی سے نکال کر آگ پر امتحان کرے ۔اس کا خیال تھا کہ آنحضرت ﷺ کا موئے اگر ہو گا تو نہیں جلے گا۔ اسی خیال سے اس نے موچنے سے موئے مبارک کے سرے کو پکڑ کر کھینچا ۔ موئے مبارک نہ نکلاسرے کے پاس سے کٹ گیا۔اور وہ ٹکڑا بھی شیشی ہی میں رہے۔ چالیس دن گذرے آزاد خان کاسر تن سے جدا کیا گیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ موئے مبارک شیشی میں معلق نظر آتا ہے ۔اور شیشی ایک طرف سے دھندلی سی رہے ۔ متولیوں نے چاہا تھا کہ شیشی کو بدلائیں لیکن موئے مبارک شیشی سے نہ نکلا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ صاحبدلوں اور خدادوستوں پر کچھ عجیب سی حالت طاری ہوتی ہے اور انہیں فیض و برکات کا احساس ہو تا تھا اکثر بزرگوں کا بیان ہے کہ وہ اسی مقام سے سر ور کا ئینات ﷺ کے دیدار سے مشرف ہوئے۔ کشمیر میں اور چارموئے مبارک ہیں ان میں جو ارادت عقیدت اور محبت لوگوں کے دلوں میں درگاہ حضرت بل کے موئے مبارک سے ہے۔ وہ بیان سے باہر ہے ۔ معراج شریف اور عید میلاد کے دنوں میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ زیارت کو آتے ہیں ( اسرار الاخیار)
                          تاریخ حسن جلد ثالث
                        (مورخ کشمیر پیر غلام حسن شاہ کھویہامی

r.jpeg

Ziarat Sharief Hazrat Roopa Reshi Sahib (RA),
Habba Kadal, Srinagar 
 

حضرت شیخ روپہ ریشی صاحب رحمتہ اللہ

حبہ کدل

اُٹھتی جوانی میںدلی جوش کے شوق سے فانی دینا سے متنفر ہو کر خدا شناسی کے راستے پر گامزن ہوئے ۔ ریشیوں کے طریقے کو پسند کر کے تنہائی اختیا ر کی ۔ اسی عرصے میں باطنی روحوں سے فیض و برکت پاتے ہیں ایک مدت استرون کی چوٹی پر جو اُولر کے پہاڑو ں پر واقع ہے ۔ تنہائی میں گذارا ۔ ایک رات کو وضو کرنے نکلے تھے ۔اور دور سے دیکھا کہ ایک نورانی سوار برف پر سے چلتا ہوا آتا ہے جب سوار نزدیک آیا ریشی نے اپنی دانائی سے اندازہ لگایا کہ یہ کوئی بڑا بزرگ ہو گا ۔سلام کر کے اپنا حال سنایا اور عرض کی کہ میر ی دلی تمنا ہے کہ میں آپ کا مُرید بنوں ۔بزرگ نے درخواست منظو ر کی اور فرمایا میرے گھر آنا چاہئے۔ ریشی نے التماس کی حضرت کے دولت خانہ کو نہیں جانتا ہو ں ۔ فرمایا شہر آکر شیخ حمزہ کے گھر کی تلاش کر و تاکہ مجھے پاﺅ گے ۔اتنا کہکر مرد بزرگ غائب ہو گئے ۔ ریشی شہر آیا پوچھتے پوچھتے حضرت شیخ حمزہ ؒکے گھر پر پہنچا ۔ شیخ نے کہا اس گھر کا پتہ تم کو کس نے دیا تھا عرض کی گھر والے نے اسی وقت رجوع کیا اور مُرید ہو گئے اور عبادت و ریاضت میں مشغو ل ہوگئے ۔ کہتے ہیں کہ محبوب العالم ؒ نے اس کے کھانے کا انتظام الگ کروایا اور ایک الگ کو ٹھری بیٹھنے کو دی ایک دن کوٹھری میں اکیلے بیٹھے تھے کہ ایک خوفناک شیر دکھائی دیا سخت ڈر گئے ۔ اور فریاد کی جب حضرت محبوب العالم ؒ نےاسکی فریاد سنی تو ہنس پڑے ۔ اور ریشی سے فرمایا۔ ریشی یہ فقیر کا گھر ہے اُسترون نہیں کہ شیر ہو ں گے ۔ ڈرونہیں ۔ یہ غیبی آدمی ہیں جو میں نے تمہارے پاس تمہاری خدمت و صحبت کے لئے بھیجے تھے ۔ابھی ان کی صحبت کی طاقت تم میں نہیں ہے۔ تم اس جنگل میں واپس جاﺅ تاکہ تیری ہمت مضبوط ہو جائے کی ۔پھر حکم موجب اسی پہاڑ پر واپس گئے ۔ اور عبادت خدامیں مشغول ہو گئے۔یہاں تک کہ ۔ اعلیٰ تربیت ۔ مرتبہ پر پہنچے اور ارشادحاصل کیا۔ پھر شہر آئے اور حبہ کدل میں تنہا نشین ہو گئے ۔مستجاب الدعوت اور لوگوں کے حاجت روا ہو گئے۔ حضرت بابا نصیب الدین ؒ فرماتے ہیں ” شیخ رُوپی ریشی کے پر تو سے میرے حال کی روشنی ہے ۔ اور فقر کے مرتبہ نے اُسی سے طاقت پائی ہے۔ لکھتے ہیں کہ ریشی کا ہمعصر ایک کامل زاہد تھا جو کچھ بھی نہ کھاتا تھا ۔ اور بغیر کھانے پینے کے زندگی بسر کرتا تھا۔ اور غیب سے اس کو کھانا پہنچتا تھا ۔ جب حضرت ریشی نے اس کا یہ حال سُنا ۔ اپنے پاس بلایا اور حال پوچھا ۔ اس نے کہا کہ ایک شخص غیب سے جنت کا دستر خوان میر ے پاس لے آتا ہے اس وجہ سے دنیاوی کھانوں سے رغبت نہیں رکھتا ہوں ۔ ریشی نے کہا !اے درویش خبردار ہو !ایسا نہ ہو کہ شیطان تم کو راستے سے بٹھکائے ۔ اور خراب کرے ۔جائے اور دسترخواں پہنچنے پر لاحول ولا قوت الاباللہ پڑھئے۔ پھر دیکھئے کیا واقعہ ہو تا ہے ۔ درویش نے رات کا کھانا پہنچنے پر ایسا ہی کیا ۔ کھانا لانے والے غائب ہو گئے۔اور کھانا بغیر نجاست اور پلیدی کے کچھ نہ تھا۔ مرد زاہد سخت پشیمان ہو گیا۔ شیخ کے پاس آکر توبہ کی ۔ اور نئے سرے سے عمل کرنے لگا ۔ کہتے ہیں کہ جان کنی وقت دوستوں نے ان کے پاس شربت لایا شیخ نے کہا۔ میں نے عہد کیا ہے کہ رب العالمین کے ساتھ ملاقات کے وقت روزہ دار ہوں ۔ اور سوائے اس گدری کے جو میر ے بدن پر ہے کچھ بھی نہ رہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت ریشی کی عمر بیس برس کی تھی اور اس میں ایک نو برس دائمی روزہ دار تھے ۔ شروع میں ہر تیسر ے دن روزہ کھولتے تھے۔آخر پر چالیس دن رات گذرنے پر پانی کا ایک گو نٹھ پی کر افطار کرتے تھے ۔ساری عمر کوایک ہی خرقہ ( گدری ) میں گذرا اور نئے کپڑے کبھی نہ پہنے ۔ کہتے ہیں کہ اُستروں پہاڑ پر اکی مُردم خوار شیر تھا ۔ ایک دن اس نے بارہ آدمی مارے۔ جب حضرت ریشی نے یہ حال دیکھا تو سِر مبارک کو مراقبہ میں رکھا ۔ اور عالم غیب سے مراقبہ مین ان کو کہا گیا کہ یہ چور آپ کے سامان اور جائیداد کو لوٹنے آئے تھے ۔ ہم نے ان کو اپنی نیت کی سز ادی۔حضرت ریشی نے دعا کی ۔ یا باری یہ چور اُمید لے کر آئے تھے ان کو پھر زندگی بخشد ے ۔ دعا قبول ہوئی اور یہ پھر زندہ ہو گئے۔یہ چور پھر حضرت ریشی کے مرید ہو گئے اور ابدالوں میں شامل ہو گئے۔غرض کہ حضرت ریشی ریاضت ۔ عبادت اور پرہیز گاری میں لاثانی اور اصلان خدا میں سے تھے۔۷۱محرم الحرام ۷۹۹ھ کو انتقال فرمایا۔ اور محلہ کا ٹل میں دفن ہو گئے۔ تاریخ۔

رُوپی ریشی رقت وسال ِ وصل او                          گفت ہا تف بودہ شیخ اہل دین

 
 

Sorry!!
Under Construction!!!!!!!!!!

...

 
 

Enter supporting content here